Follow me on Twitter

دسمبر

دسمبر بے رحم تو ہے
مگر بے حس بھی ہے جانا
ابھی تو پھول ساروں کی
بُجھی نہ پیاس شبنم سے
ابھی تو سرد موسم کو
بہاروں سے بھی ملنا ہے
ابھی تو چاند تاروں نے
جلدی گھر کو جانا ہے
ابھی سورج کے سب شکوے
مٹانے دن کو ہیں اور پھر
ابھی تو پنچھیوں نے بھی
ہزاروں گیت گانے ہیں
اُسی موسم میں جس میں اب
دسمبر تو نہیں ہوگا
مگر ایک بات کہنی تھی
ذرہ تم غور سے سُننا
ابھی اِس دل کے موسم میں
اُمیدیں ہیں دسمبر سے
ابھی کچھ روز بس شاھجھاں
اُسے کہہ دو ٹھہر جائے
ہمیں کچھ وصل کے لمحے
دسمبر میں عطا کرنے کا
شاید وہ تیرا وعدہ
پھر کوئی سال نہ لے لے
اُسے کہہ دو ٹھہر جائے

0 comments: