Follow me on Twitter

تجھ سے اُمیدِ وفا ہے

تجھ سے اُمیدِ وفا ہے
کچھ نہیں، ایک تجربہ ہے

کون ہوگا اب مسیحا
درد ہی اپنی دوا ہے

بے قراری انتظاری
کس کا تجھ کو آسرا ہے

مفلسی  چاہو تو رکھ لو
پاس اپنے اور کیا ہے

ہیں مسلط جبر و جابر
بےبسی کی انتہا ہے

لے ہی ڈوبا قوم کو یہ
خوب اپنا رہنما ہے


0 comments: