Follow me on Twitter

کاش تم جان جو پاتی

کاش تم جان جو پاتی یہ محبت میری
تو میری ذات کی چاہت میں فنا ہو جاتی

تیرے ہونٹوں پہ کوئی لفظ نہ خواہش کوئی
اِس قدر ہاتھ اٹھاتی کہ دعا ہوجاتی

دور کی بات تھی الفاظ سے اقرارِ محبت
ہم اگر پھول بھی دیتے تو خطا ہوجاتی

قصہِ ماضی ہے ستم تیری جوانی کے حضور
بےخودی کے وہ شرارت بھی ادا ہو جاتی

تم نے اچھا کیا گلشن سے گریزاں رہہ کر
ورنہ ہر ایک کلی تم پہ فدا ہوجاتی

تم نے اچھا کیا اُس رات نہ ملنے آئے
لوگ ظالم ہیں کہ بدنام وفا ہو جاتی

اب سٰمیل عمر جو گذری تو خدا یاد آیا
کاش فرضوں سے وفا پہلے ادا ہو جاتی

0 comments: