Follow me on Twitter
بُجھائے جو بھی آندھی نے دیے پھر وہ جلاتے ہیں
غزل
بُجھائے جو بھی آندھی نے دیے پھر وہ جلاتے ہیں
بہت تاریک راتیں ہیں چلو روشن بناتے ہیں
کبھی جو پاس جائیں ہم تو کیوں خاموش رہتے ہیں
اگر پھر دور ہوجائیں تو کیوں ہم کو بُلاتے ہیں
بھلا وعدہ خلافی کا دیں ہم الزام اُن پر کیوں؟
نہیں ہرجائی وہ لیکن نبھانا بھول جاتے ہیں
بڑے مشہور اُن کے حسن کے چرچے ہیں لوگوں میں
جہاں جائیں وہاں قصے سبھی اُن کے سُناتے ہیں
سُنا ہے چاند کی بھی دھڑکنیں تب تیز ہوتی ہیں
اٹھا کر اپنی وہ نظریں کہ جب بھی مسکراتے ہیں
پہن کر جب وہ گھنگھرو رات کو آنگن میں آتی ہے
تو لمحے رقص کرتے ہیں ستارے گنگناتے ہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 comments: